بہار آئ ہے تم بھی چلے آوء
آکے پھر سے رعنائیاں لوٹاوء خزاں کے ساتھ میں بھی جھڑ رہا تھا کہیں گل و لالہ انہیں میرے دل کا حال بتلاوء تم دل میں بس چکے تھے کچھ اس ادا سے بس اب لوٹ آوء ، پھر سے فرحینیاں لاوء تمھاری آواز اب بھی گونجتی ہے کانوں میں تم کسی اور کی صحیح لیکن ایک بار تو بلاوء صوت جاناں کی بھی تاب نہ کا سکیں گے یہ گوش چاہتی ہو گر مارنا تو دوبارا سے گنگناوء تم آوء گی، آوء گی اور ضرور آوء گی یہ صرف خیال ہے، اس دل کو سمجھاوء وصال کا بھی، محبت کا تصور بھی ہے رہتا میری یادوں یوں کہہ کر مجھے نہ تڑپاوء نہ کر سکا میں قابو یہ بے قابو دل اپنا دنیا والو! میری بےبسی پر نہ مسکراوء بہت رو چکا ہوں میں اب تمھاری باری ہے کیسے مناوء دل کو، میرے دل کو رلاوء ہے نور بھی اور ناراضی بھی دونوں یکساں میرے فرشتو! جا کے اس مہربان کو مناوء مر جاوءں گی جو تم سے دور ہوئ کبھی سب جھوٹ ہے، آج یہ کر کے تو دکھاوء ہوئیں ختم انتظار کی گھڑیاں ساقی اس ناتاوان کو نئے عشق کا جام پلاوء محبت ایک جزبہ ہے جو ہر روز ابھرتا ہے تم بھی کسی اور سے اے دل! نئ آس لگاوء اس کے ہونٹوں کی لالی پر مچلتا ہے شباب اپنا سنو! میرے جرم خانہ خراب پر مزید قہر نہ ڈھاوء رقیب من خوب رو بھی ہے، چرچا بھی خوب ہے اسکا اک بات یاد رکھو اسے مجھ سے ہرگز نہ ملاوء تمھاری اک ہاں سے شعلے جو بھڑکے تھے دل میں جانم اپنی خاموشی سے وہ انگارے نہ بجھاوء ہجر کی رات نے سی پارا کر دیا ہے جگر کو تم میرے سوگ پر بھی اب صف عزا بچھاوء دل جو دے بیٹھے ہیں بس یہ ہی خطا ہوئ ہے کراوء، اب بلا معاوضہ ہم سے مشقتیں کرواوء راہ بھی ہو گئ تمام اور زاد راہ بھی کھو گیا نشان پاء جو رہ گئے ہیں انہیں تسلی سے مٹاوء تمھارے ہاتوں کا لمس تھا میری دھڑکن کا ضامن وہ احساس چھین کے ہاں! مجھے تم تڑپاوء سنا ہے ساقی سے ہے تمھارا یارانہ اب مجھے تم نہیں چاہیو، بس ایک جام دلاوء کہا تھا تم نے آوءں گی خوابوں میں ستانے تم کو تم پر باقی ہے جو وعدہ خوبصورت! اسے وفا کر جاوء جواد میلوں کوس دیکھ کر کوستا ہی رہا خود کو پاگل کہتا، آبھی جاوء میری جان بس میری ہو جاوء |
Qissa-Tales
Thursday, 30 March 2017
بہار آیَ ہے تم بھی چلے آوَ
Subscribe to:
Posts (Atom)